زندگی خاک نہ تھی ، خاک اڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے ، تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو , کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی ، تو کوئی خواب دکھا تے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رھی ، عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ , بس ناز اُٹھاتے گزری
زندگی جس کے مقدر میں ھوں , خوشیاں تیری
اُس کو آتا ھے نبھانا , سو نبھاتے گزری
زندگی نام اُدھر ھے کسی سرشاری کا
اور اِدھر , دُور سے اک آس لگاتے گزری
رات کیا آئی کہ , تنہائی کی سرگوشی میں
ھُو کا عالم تھا ، مگر سُنتے سناتے گزری
بارھا چونک سی جاتی ھے , مسافت دل کی
کس کی آواز تھی ، یہ کس کو بلاتے گزری.
No comments:
Post a Comment