وقت گزرے گا کہاں وقت گزارا جائے
اج تو رات بھر تجھ کو پکارا جائے
زور سے ضد سے یا پھرزبردستی سے
جس طرح ہوسکے مقدر کو سنوارجائےا
مٹ چکے نقش میرے دل پہ جو کندہ تھے
ایک نیا نقش دل مردہ پہ ابھارا جائے
میری بھی ضد ہےکنارا نہیں کرنا مجھ کو
جب تلک در سے تیرے مجھکو نہ دھتکارہ جائے
ہم نے مانا ہے تجھے قطب کے تارے کی طرح
انتظار کب تیری جانب سے اشارہ جائے
No comments:
Post a Comment