یہی بہت ہے کہ شہری اداس ہوتے ہیں
یہ گاؤں والے تو پیڑوں سے مل کے روتے ہیں
درخت کاٹنے والوں کو کیا لگے اس سے
کہ جنگلوں میں پرندے اداس ہوتے ہیں
جو راستے میں ملیں بادلوں سے یہ کہنا
کسان بیج نہیں اپنے خواب بوتے ہیں
رٹی رٹائی سی باتوں کی چوری مانگتے ہیں
تمھارے باغ کے یہ کتنے اچھے طوطے ہیں
انائیں سرد سی کھڑکی میں ہنستی رہتی ہیں
یہ بےوقوف سرھانوں کے ساتھ سوتے ہیں
تمھارے دودھیا بازو تمہیں مبارک ہوں
یہ میرے خواب مرے بازؤں پہ سوتے ہیں
درست کہتی تھی مجھ سے وہ گاؤں کی لڑکی
کہ شہر والے بھی کتنے خراب ہوتے ہیں
No comments:
Post a Comment