مُجھ سے ملنا وہ بھول جاتا ہے
روز وعدہ فضول جاتا ہے
ہجر , بجلی کے تار جیسا ہے
عشق , چڑیا ہے جھول جاتا ہے
اک گلہ تھا جو کب سے کرنا تھا
آپ آتے ہیں بھول جاتا ہے
کوٹ پر وہ اگر نہیں ٹانکے
پھول ہونا فضول جاتا ہے
ہر کوئی ہم سے سادہ لوحوں کی
جھونک آنکھوں میں دھول جاتا ہے
تیری صحبت میں ایسا کیا جادو
جو بھی جائے ملُول جاتا ہے
No comments:
Post a Comment